کڑوا سچ اور ایک سوال
By Rana Ashiq
اسلام میں پیشوائیت کا کویٴ تصورنہیں
ہے جیسے پوپ ، پادری ، بشپ، گرو، پنڈت، ملّا، مولوی،پیشوا، پیر،
مرشد وغیرہ وغیرہ۔ اسلام میں اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان
بوگس ، گمراہ اور جعلی وسیلوں کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ان کی
دعائیں ہمارے لئے آخرت میں نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ صرف مخلص اور
غیر تجارتی علماء سے ہم قرآن فہمی میں رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔
مخلص اور غیر تجارتی علماء سے مراد وہ اہل علم مراد ہیں جو ہم سے اس سلسلہ
میں کوئی مالی منعفت اور معاوضے کے طلب گار نہ ہوں۔ یہی سنت طریقہ ہے ۔
"اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ، قُلْ
لَّآ سْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا، اِنْ ھُوَا ِلَّا
ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیٌنَ" یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ہدایت دی اللہ نے سو تم بھی
انہی کے راستے پر چلو ، کہہ دو نہیں مانگتا میں تم سے اس کام پر کوئی اجر،
نہیں ہے یہ ، مگر نصیحت جہان والوں کے لئے (الانعام:90)۔
قرآن
کی رو سے جو لوگ قرآنی ہدایت و محکمات کو چھپاتے ہیں اور ان کو بیان کرنے
کی بجائے ان جھوٹی اور موضوع احادیث، قصے ، کہانیاں، اقوال و روایات
پرانحصار کرتے ہیں جو حضرت محمدﷺ کی وفات کے صدیوں بعد عربوں
کی متنازعہ تاریخ کا حصہ بنیں اور جو اسلام کو بطور ایک پیشہ
کے اس لئے اختیار کرتے کہ وہ اس سے پیسہ کمائیں ان ہی کے لئے
تواللہ نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے "وَلَا تَلْبِسُواالْحَقَّ
بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواالْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ" اور نہ مشتبہ
بناؤ حق کو باطل کے ساتھ ملاکر اور نہ چھپاؤ حق کو تم جانتے بوجھتے
(البقرہ:42)۔ "اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ
الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی
الْکِتٰبِ، اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ"
بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں ہمارے نازل کئے ہوئے واضح احکامات اور
ھدایت کو اس کے بعد بھی کہ کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں ہم نے وہ لوگوں
کے لئے اس کتاب میں ، وہی لوگ ہیں کہ لعنت کرتا ہے ان پر اللہ بھی اور
لعنت کرتے ہیں ان پر سب لعنت کرنے والے (البقرہ:159)۔ "اِنَّ
الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ
یَشْتَرُوْنَ بَہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا، اُولٰٓئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ
بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللہُ یَوْمَ
الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ،وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ" بے شک جو لوگ
چھپاتے ہیں اس کو جو نازل کیا ہے اللہ نے اپنی کتاب میں اور لیتے
ہیں اس کے بدلے تھوڑی قیمت ، یہ لوگ نہیں بھرتے اپنے پیٹ میں
مگر آگ اور نہیں بات کرے گا ان سے اللہ روز قیامت اور نہ پاک کرے
گاان کو اور ان کے لئے ہے درد ناک عذا ب (البقرہ :174)۔ " وَلَا
تَشْتَرُوْا بِعَھْدِاللہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا، اِنَّمَا عِنْدَاللہِ
ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ" اور نہ بیچ ڈالو تم اللہ
کے عہد کو حقیر معاوضہ کے بدلے، یقینًا وہ جو اللہ کے پاس ہے وہی ہے بہتر
تمہارے لئے ، اگر تم جانو (النحل:95)
دنیا
میں آج صرف ایک ہی کتاب ہے جس کو من جانب اللہ ہونے کا دعویٰ ہے۔ یہ کتاب
قرآن پاک ہے جو سابقہ آسمانی کتب توریت، انجیل، زبور اور دیگر آسمانی
صحائف کا جدیداور آخری ایڈیشن ہے۔ کوئی شخص بھی اگر وہ ہٹ دھرم نہیں ہے
فہم وفراست کی بنیاد پر اس دعویٰ کی تردید نہیں کرسکا اور نہ ہی تا
قیامت کرسکے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت رہے گی۔ قرآن کے
علاوہ آج روئے زمین پر کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جو یہ دعویٰ
کرسکے کہ وہ اپنی موجودہ صورت میں من جانب اللہ ہے۔ آخرت میں ہماری نجات
کا دارومدارصرف اور صرف قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنے پر ہے۔ باقی انسانی
ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتابیں اگر قرآن کی مطابقت میں ہو تو ان پر عمل
کیا جانا چاہیئے اور اگر وہ قرآن کے بر خلاف ہوں تو وہ رد کر دینی چاہیئں۔
اسی طرح اگر علماء اور اکابرین کا عمل قرآن کے مطابق ہو تو اسے اختیار کر
لینا چاہیئے ورنہ اس کو بھی رد کر دینا چاہیئے۔
کچھ
لوگوں کی طرف سے ایک مغالطہ ہمارے ذہنوں میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے ہمیں پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے اور یہ
اتباع ہم صرف اور صرف حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہی کرسکتے
ہیں جس کے لئے ہمیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی
داؤد، سنن ابن ماجہ،سنن نسائی، الکافی، تہذیب اور استبصار جیسی دیگر
کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ آپ ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کیجیئے مگر
یاد رکھیئے یہ کتابیں نہ حضورﷺ کے زمانے میں لکھی گئیں، نہ خلفائے راشدین
کے زمانے میں ورطہ تحریر میں لائی گئیں اور نہ تابعین اور تبع تابعین کے
زمانے میں ان کا کوئی وجود تھا۔ یہ حضورﷺ کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد کی
تحریریں ہیں ۔
خدا
را
ان کا موازنہ قرآن پاک سے نہ کیجیئے جس کوحضورﷺ اپنی حیات مبارکہ
میں اپنی امت کو ایک مکمل کتاب کی شکل میں دے کر گئے۔ یہ آپﷺ کی زندگی میں
ہی موجودہ کتابی شکل میں بھی موجود تھا اور ہزاروں صحابہ کرامؓ کے
سینوں میں بھی محفوظ تھا۔ اور اس وقت سے لے کر آج تک اس کتاب میں ایک حرف
کی بھی کمی و بیشی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں جھوٹی اور موضوع روایات
پر اعتبار نہ کیجیئے جو منافقین عجم کی گھڑنت ہیں اور جن کے مطابق
قرآن کے جمع کرنے کا کام حضورﷺ کے بعد اول حضرت ابو بکرؓ اور پھر حضرت
عثمانؓ نے کیا۔ قرآن پر اعتبار کیجیئے جو کہتا ہے "اِنَّ عَلَینَا
جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ" یقینًا اس (کتاب) کا جمع کرانا اور پڑھوانا
ہمارے ذمہ ہے (القیامہ:17)۔ کیا ہم ایک لمحے کے لئے بھی یہ تصور کر
سکتے ہیں کہ یہ جمع القرآن کا فریضہ اللہ تعالیٰ حضورﷺ (جس پر قرآن
نازل ہوا تھا) کی ذات کو چھوڑ کر کسی اور سے پورا کرواتا۔ جمع
القرآن صرف اور صرف اللہ ہے اور دین محمد ﷺ کی زندگی میں ہی مکمل ہو
گیا ۔ "ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ
عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِى" ۔ آج کے دن تمھارےلیے تمھارے دین کو میں نے کامل
کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا ۔ (المَائدة: 03) ۔
اب
آیئے اتباع رسول کی طرف تو رسولﷺ تو خود فرماتے ہیں کہ میں تو پیروی
کرتا ہوں اس کتاب کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ "قُلْ لَّآ
اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ
وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ، اِنْ اَتَّبِعُ اَلَّا مَا
یُوْحٰٓی اَلَیَّ، قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ، اَفَلَا
تَتَفَکَّرُوْنَ" کہہ دو! نہیں کہتا میں تم سے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے
ہیں اور نہ جانتا ہوں غیب اور نہ کہتا ہوں میں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں،
نہیں پیروی کرتا میں مگر اس کی جو وحی کیا جاتا ہے میری طرف ،پوچھو (ان سے
) کیا برابر ہوسکتا ہے اندھا اور آنکھوں والا، کیا تم غور
نہیں کرتے؟ (الانعام:50)۔ "قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ
الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ،قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ
اَھْوَآءَکُمْ،قَدْ ضَلَلْتُ اذًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ"
کہہ دو! بے شک مجھے منع کیا گیا ہے اس سے کہ میں عبادت کروں ان کی جنہیں
تم پکارتے ہو اللہ کے سوا ۔کہہ دو! نہیں پیروی کروں گا میں تمہاری خواہشات
کی ، یقینًا گمراہ ہو جاؤں گا میں اگر کیا ایسا اور نہ رہوں گا میں شامل
ہدایت پانے والوں میں (الانعام:56)۔ "وَاِذَا لَمْ تَاْتِھِمْ بِاٰ یَۃٍ
قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَیْتَھَا، قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی
اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ، ھٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَھُدًےوَّ
رَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ" اور جب نہیں پیش کرتے تم (اے نبی) ان
کے سامنے کوئی معجزہ تو یہ کہتے ہیں کہ کیوں نہ منتخب کرلی تم نے (اپنے
لئے کوئی ) نشانی کہہ دو!کہ میں تو صرف پیروی کرتا ہوں اس
کی جو وحی کیا جاتا ہے مجھ پر میرے رب کی طرف سے یہ (قرآن) ،
بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں
کے لئے جو ایمان لائے ہیں (الاعراف:203)۔ "وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ
اٰیَا تُنَا بَیِّنٰتٍ، قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ
لِقَآءَنَاائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ، قُلْ مَا
یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ، اِنْ
اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ، اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ
رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ" اور (اب یہ بھی) جب پڑھ کر سنائی جاتی
ہیں ان کو ہماری آیات جو بہت واضح ہیں تو کہتے ہیں وہ لوگ جو نہیں
توقع رکھتے ہم سے ملنے کی کہ لاؤ کوئی اور قرآن علاوہ اس کے یا اس میں کچھ
ترمیم کردو ۔ کہو! نہیں ہے یہ میرا اختیار کہ میں اس میں کوئی تبدیلی کروں
اپنی طرف سے ، نہیں پیروی کرتا میں مگر اس کی جو وحی بھیجی جاتی ہے
میری طرف ، بے شک میں ڈرتا ہوں اگر نافرمانی کروں میں اپنے رب کی، عذاب سے
ایک برے حولناک دن کے (یونس:15)۔
حضرت
محمد ﷺ خود بھی قرآن کا اتباع کرتے تھے اور ہمارے لئے بھی اللہ
تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ ہم بھی اسی وحی کی پیروی کریں۔ "قُلْ یٰٓاَیُّھَا
النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ
مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْارْضِ، لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ
یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِا للّٰہِ
وَرَسُوْلِہِ النَّبِّیِ الْاُمِّیِّ
الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ
لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ" کہہ دو! اے انسانوں بے شک میں رسول ہوں اللہ کا
، بھیجا گیا ہوں تم سب کی طرف (اللہ وہ ہے) جسے زیب دیتی ہے بادشاہی
آسمانوں کی اور زمین کی ۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے وہ زندگی
بخشتا ہے اور موت دیتا ہے ، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول
نبی امی پر وہ جو خود بھی ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے کلام پر
اور پیروی کرو اس کی ، تاکہ تم ہدایت پاؤ (الاعراف:158)۔
اب
جب اللہ تعالیٰ ہمیں اس کتاب یعنی قرآن پاک کی اتباع کا حکم دیتے ہیں اور
حضورﷺ خود بھی اسی کا اتباع کرتے تھے اور انہوں نے ہمارے لئے بھی اسی کا
اتباع لازم قرار دیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے ہم اس کو سمجھنے کی کاوش
نہ کریں؟اگر ایک سات سال کا بچہ اس کتاب کو لفظ بلفظ اپنے سینے میں
محفوظ کر سکتا ہے تو ہم ساری زندگی اس کے معنی سمجھنے سے قاصر کیوں رہتے
ہیں ؟جبکہ خاص طورپر اس کا سمجھنا اللہ تعالیٰ نے بہت آسان بنایا
ہے: (وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآ نَ لِلذِّکْرِ) ہم نے نصیحت حاصل
کرنے کے لئے قرآن کو آسان بنایا ہے (القَمَر:17)۔ بس یہی ایک سوال
ہے جس پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہیئے۔
کڑوا سچ اور ایک سوال : تبصرہ
جن بھائیوں نے زیر نظر مضمون پراپنے خیالات کا اظہار کیا ہے میں ان سب کا نہایت صدق دل سے ممنون ہوں۔
1بھائی سید علی نے کہا:
Well said brother, Jazaak ALLAH.
بھائی ارشاد محمود نے لکھا :
Jazaak Allah Khair. Excellent Eye Opening article, I request all who understand URDU to read with full attention.
برخوردار شوکت رشید نے لکھا : یہی سچ ہے
: ثریا بیٹی نے کہا : یہ ہی حقیقت ہے۔
بھائی محمد حامد لکھتے ہیں :آپ نے بالکل صحیح فرمایا اور صحیح دین کو
سمجھنے کے لیے ہمارا منبع قران مجید ہی ہونا چاہیے اور کوئی دوسری چیز
نہیں اور ہمارے رسولﷺ کا بھی یہی حکم ہے۔
بھائی ڈاکٹر محمد عقیل نےکہا:
Good writing
ایک اور بھائی نے مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ہے :
(1)۔صحیح احادیث کی جو کتابیں آج موجود ہیں ان کو ترتیب بعد میں دیا گیا لیکن ان احادیث کی تعلیم شروع ہی سے دی جاتی تھی۔
(2)۔احادیث کی چھان پھٹک کے بعد ہی ان کے درجات کا تعین ہوا ہے، اس لئے ان سب کو موضوع کہنا ہمارے دین پر ظلم ہے۔
(3)۔قرآن
میں بہت سی باتوں کی تشریح نہیں ہے. ان کی تشریح ہمیں آخری نبی صل اللہ
علیہ وسلم نے دی ہے. یہ صحیح احادیث میں ملتی ہے. اگر صرف قرآن کافی
ہوتا تو ہم صلوة کس طرح ادا کرتے؟
مندرجہ
بالا تبصرہ کے جواب میں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ کڑوے سچ میں کہیں
بھی یہ بات نہیں کہی گئی کہ احادیث کی کتب کو نہ پڑھا جائے۔ اور نہ
یہ کہا گیا ہے کہ ساری کی ساری کتابیں موضوع اور گھڑنت ہیں ۔ صرف
یہ کہا گیا ہے کہ ان کو ضرور پڑھیے لیکن خدا را ان کا قرآن سے
مقابلہ نہ کیجئے۔ ان میں جو روایت قرآن کے مطابق معلوم ہو قبول
کیجئے اور جو قرآن کے خلاف ہو، اسے رد کر دیجیئے۔ قارئین کے استفادہ کے
لئے حدیث کی پرکھ کے چند اصول پیش کئے جارہے ہیں جو اقبال احمد سہیل
کی کتاب "What is Arriba?" سے اخذ کئے گئے ہیں۔خلاصہ از محمد شفیع
آغا: ترجمہ رانا محمد عاشق ۔
(الف): تمام محدثین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے احادیث کو روایت کرنے کے لئے
نہایت سخت محنت اور جانفشانی سے کام لے کر فن روایت کے بہت سارے
اصولوں اور طریقوں کو متعین فرمائے۔ انہوں نے تقریبًا ہر راوی کے بارے میں
یہ ذکر کیا ہے کہ وہ کتنا مستند ہے ، اس کی ذہنی حالت کیا ہے، کن کن سے اس
نے روایت کیا ہے، اس کے معاصرین کون کون تھے اور ان کی
روایات روایت کس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ انہوں نے فن روایت
اور راویوں کی سیرت و احوال پر ایک بڑا قابل قدر ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تاہم
محدثین انسان تھے اور غلطی کا صدور ان سے ہو سکتا تھا۔ یہ عین
ممکن ہے کہ کچھ مستند احادیث ،انکے چھان بین اور فیصلہ کرنے کے
ناقدانہ معیار پر پوری نہ اتری ہوں ، اس لئے وہ احادیث آج ہمارے پاس
موجود ہی نہ ہوں یا اگر ہوں تو ضعیف اور موضوع احادیث کی صورت میں ہوں ۔
اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ جس راوی کو محدثین نے مستند اور اچھی یاد
داشت کا مالک سمجھا ہو ، حقیقتًا وہ ایسا نہ ہو۔یا اچھی یاد داشت کا مالک
ہونے کے با وجود اس نے ایک غلط بات روایت کردی ہو اور وہ غلط روایت
مستند روایات کے اندر شامل کر لی گئی ہو۔
(ب):
بہت سی روایات اصلی الفاظ یا اقتباسات کی بجائے مستخرجات پر
مشتمل ہیں ۔ پس یہ روایات حضرت محمد ﷺ کے اپنے اصل الفاظ میں روایت نہیں
کی گئیں بلکہ راوی نے جو کچھ معنی حضورﷺ کے الفاظ کے سمجھے اس نے وہ
اپنی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق پوری خلوص نیت کے ساتھ حدیث
رسول ﷺ کے حوالے سے اپنے الفاظ میں بیان کردیئے۔ اب ہر کوئی جانتا
ہے کہ الفاظ تو ایک طرف ، بیان کرنے والے کے لہجہ میں
ایک معمولی سی تبدیلی بھی معانی کے اندر بہت فرق پیدا کر سکتی ہے۔
(ج):
بعض اوقات حضور ﷺ نے دو مختلف موقعوں پر دو مختلف ہدایات دیں اور
دونوں میں کافی الفاظ مشترک تھے تاہم ان کی نوعیت مختلف تھی۔ لیکن
راوی نے غلطی سے ایک ہدایت کے الفاظ دوسری ہدایت کے
الفاظ کے ساتھ مکس اپ کردیئے۔ اس طرح سے اصلی روایت میں ذرا سی
تبدیلی نے معنی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔
(د):
بعض اوقات پاک پیغمبر ﷺ نے ایک مختصر سی ہدایت دی اور اس کی کوئی وجہ نہیں
بتائی۔ اب سننے والے نے اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق اس ہدایت
کے لئے 'وجہ' خود ہی تخلیق کر ڈالی۔ جب یہ روایت آگے بڑھی راوی کا
اضافہ اصلی حدیث کا حصہ بن گیا۔ تب روایت کے پھیلاؤ کی بنیاد پر
کچھ معزز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا بعد میں آنے والے
تابعین نے اپنی سمجھ کے مطابق بعض معاملات میں فتویٰ جاری کردیا اور کچھ
عرصہ کے بعد یہی فتویٰ حدیث کا حصہ بن گیا۔ پس دیکھیں کہ چیزیں بعض
اوقات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں اور کس طرح ان کے اصلی معنوں میں
تبدیلی آجاتی ہے۔ جب فقہا کو یہ روایت اتنی تبدیلیوں کے بعد ملی تو
انہوں نے منطقی طور پر بال کی کھال ادھیڑنا شروع کردی لیکن انہوں نے روایت
کی صحت کے بارے میں تحقیق نہیں کی تاکہ اس میں جو اضافہ ہو گیا تھا اسے
صاف کیا جاسکے۔
(ر):
بعض اوقات ہمیں کوئی روایت نہایت ہی غیر معقول اور مکمل طور پر قرآنی متن
یا پاک پیغمبر ﷺ کی عظمت اور اونچی شان کے خلاف ملتی ہے۔ اس قسم کی
روایات تو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہونی چاہئیں چاہے ان کے راوی کتنے
ہی مستند کیوں نہ ہوں ۔ بجائے ان کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے کے
مناسب ہوگا کہ ان کو رواویوں کی غلطی اور غلط فہمی پر محمول کیا
جائے، بہرحال وہ انسان ہی تو تھے چاہے وہ پاکیزگی میں کتنا ہی اونچا مقام
کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ان کی طرف سے غلطی اور غلط فہمی کے امکان کو ہرگز رد
نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تمام اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ معصومیت صرف
پیغمبروں کا ایک خصوصی اعجاز ہے۔ راویوں کی معصومیت کا عقیدہ شریعت
کا حکم نہیں ہے۔ اور ہمارے عقیدہ کے مطابق یہ بالکل نا ممکنات میں سے ہے
کہ پاک پیغمبر کا کوئی حکم غیر معقول اور قرآنی روح اور اس کے الفاظ کے
خلاف ہو۔ مزید یہ کہ پاکیزگی اور پارسائی کے اوصاف، معاملہ فہمی اور
معانی و مفہوم کو دوسروں تک پہچانے کی صلاحیت سے بالکل جدا اور
مختلف اوصاف ہیں اور لازمی نہیں ہے کہ یہ تمام اوصاف ایک ہی شخص میں
پائے جائیں۔ لیکن اس سب کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ
راویوں کے الفاظ اورمحدثین کی تحقیق میں غلطی کو غلطی مانا ہی
نہیں جاتا، چاہے یہ روائتیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ قرآن کی آیات
سے بھی متصادم کیوں نہ ہوں ، چاہے ایسی روایات قبول کرنے سے اسلام کی صحیح
روح کتنی ہی مجروح کیوں نہ ہوتی ہو اور اس پر کتنے ہی ناروا اعتراضات وارد
کیوں نہ ہوتے ہوں اور سب سے بڑھ کر چاہے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ
عنہم ایسی رویات کو رد ہی کیوں نہ کر چکے ہوں۔
مثال
کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ جب حضرت ابو ہریرہؓ نے یہ روایت کی کہ جب
میت کے گھر والے روتے ہیں تو اس کا عذاب میت کو دیا جاتا ہے، تو ام
المؤمنین حضرے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں نصیحت کی
اور یاد دہانی کروائی کہ اللہ نے خود قرآن پاک میں فرمایا ہے "ـــ
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی" (الانعام:164) اور نہیں اٹھاتا
کوئی بوجھ اٹھانے والا بوجھ دوسرے کا۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لواحقین
کے رونے سے مرنے والے کو عذاب ہو، یعنی گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کی
بجائے عذاب کسی اور کو دیا جائے؟ اس لئے یہ نبی کریم ﷺ کی حدیث نہیں
ہوسکتی۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب مرنے والے کے لواحقین جدائی میں روتے
ہیں تو مرنے والا اپنے اعمال کے نتائج سے نبرد آزما ہورہا ہوتا ہے۔
یہی حقیقت تھی جس کا حضرت محمد ﷺ نے ذکر کیا تھا ۔ ایک غلط فہمی کی وجہ سے
راوی نے رونے اور عذاب کے درمیان ایک علت اور معلول کا رشتہ قائم کرلیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام رضی
اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسے بہت سارے واقعات کا ذکر فرمایا ہے۔ اب فرض
کریں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو مسلم خواتین میں
فقہ میں ایک بلند مقام رکھتی ہیں وہ وہاں پر موجود نہ ہوتیں اور روایت پر
کوئی اعتراض نہ اٹھایا جاتا تو یہ اسلام کے چہرے پر کتنا بڑا
دھبہ ہوتا! اس قسم کے واقعات کے بیان کا مقصد احادیث کو مشکوک بنانا اور
اس کے نتیجہ میں ان کو یک سر رد کرنا نہیں ہے۔ ہم ہرگز اس بات سے غافل
نہیں ہیں کہ اس طرح ہم ایک ایسے بیش بہا خزانے سے محروم ہوجائیں گے جس کو
محدثین نے اپنی قابل تحسین اور بیش بہا کوششوں سے جمع کیا تھا
جس کا بہت بڑا حصہ حضرت محمد ﷺ کی درست احادیث پر مشتمل ہے اور جو ہمارے
ایمان کا جز ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں کچھ عجیب اور حیران کن روایات
کو بطور مستند احادیث کے قبول کرنے میں ذرا محتاط ہونا ہوگا۔ ہمیں
صرف اصول روایت کو ہی نہیں بلکہ اوپر بیان کردہ امکانات کو بھی مد نظر
رکھنا ہوگا ۔ ایک ہی موضوع پر مختلف روایات کو اکٹھا کرکے ان کا
معنی اور سیاق و سباق کے حوالے سے موازنہ کرنا ہوگا اور پھر ان کو قرآنی
آیات ، ایمان اور حکمت کی کسوٹیوں پر بھی پرکھنا ہوگا۔ اگر کوئی روایت ان
معیاروں پر پوری اترتی ہے تو پھر اس کے وجوب پر کون شک کرسکتا ہے؟